trešdiena, 2017. gada 8. marts

جمہوریت کی سالم-سازی کی راہ میں نشانیاں (Orientieri demokrātijas atveseļošanas ceļā)URDU


                     

         
لیکن انسانیت برقرار رکھنا ہمارا انتخاب ہے    انسان ہونا ہماری فطرت میں ہے

جمہوریت کی سالم-سازی کی راہ میں نشانیاں

غیر قابل قبول بات ہے کہ آج کے معاشرے میں اب تک پہلے کی طرح بہت سے لوگ
درد کی تکلیف برداشت کرتے رہتے ہیں، مصیبتوں اور آفتوں کا سامنا کرتے رہتے ہیں، سماجی برائیوں کی اصلی وجوہات کو ٹھیک سے نہ جانتے- پہچانتے ہوئے، مسئلوں کے ماخذ کو معلوم کرنے کی کوشش تک نہ کرتے ہوئے، ڈٹکر اور ثاپت قدمی سے پھر بھی اکثر عبث اپنے کو اصلیت کے موافق بنانے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ اپنی انسانیت کا تھوڑا- بڑا حصہ کھوتے ہوئے، اپنی ضمیر کے ساتھ مفاہمت کرتے ہیں۔ ارد گرد کی ہو رہی حالت کو دیکھتے ہوئے، اور زندگی کے اپنے تلخ تجربے پر مبنی ہوتے ہوئے، ہم محبت اور بہبودی کے اپنے اشتیاق کو ظاہر کرنے سے اکثر ڈرتے ہیں، اپنے حقیقی جذبات کو اپنے اندر
گہرائی تک چھپاتے ہیں،  ایک دوسرے پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے، ایمانداری، روحانیت، و بےغرضي پر یقین نہ رکھتے ہوئے، منافق اور بدخلق بن جاتے ہیں۔ نتیجتا اپنے آپ میں اپنی قدرتی انسانیت کو ڈھونڈ نکالنا، سمجھنا اور عمل میں لانا – مشکل ہو جاتا ہے۔ کیا، آج کے زمانے میں ایک انسان ہونا اتنا دشوار بن گیا ہو؟!     
کیوں ابھی تک ہم عدم-انسانیت کی نسبت ذمےدار لوگوں کو یا ڈھونڈ نکال نہیں سکتے یا اس کے لئے کوشش بھی نہیں کرتے، کیوں ھم ایسی حالت کو قبول کرتے ہیں جب برسر اقتدار جاہل رہنما اور جانباز سیاستدان لوگ آتے ہیں اور اقتدار اپنے قبضے میں رکھتے ہیں؟!         
اپنی دقیانوسی سوچ، عمومی رویوں اور تعصبات کی قید میں رہتے ہوئے، متکبر اور ماہر کے نام کے پیچھے چھپے غیر جذباتی  بلا جواز مظاہروں کے دائرے میں اکثر محدود ہوتے ہوئے اس بارے میں تباہ کن خیالات، توجیح اور وضاحت جاری رکھیں کہ سیاست دانوں اور ریاست کے رہنمائوں کے مختلف اقدامات، فیصلوں اور ان کی خطروں سے بھری سرگرمیوں کے بارے میں کیا خیالات اور رد عمل ظاہر کریں، دوسرے لفظوں میں ان کی سرگرمیوں کے نتائج سے کیسے نمٹ جائیں۔ تاہم کیا کیا جا سکے تاکہ جمہوریت کے موجودہ اداروں کو مزید مضبوط بنایا جائے اور حکومت کی باگ دوڑ لالچی بدماشوں، کیریئر کے دیوانوں اور طاقت کے ناقابل لوگوں کے ہاتھ آنے میں سخت ترین رکاوٹیں بنائی جائیں۔
موجودہ خیالی جمہوریت میں تعطیل کو توڑنے کے لئے کم سے کم پہلا قدم اٹھانے کی خاطر پہلے پہلے یہ کرنا کافی ہے کہ وسیع قومی سروے کے ذریعے معاشرے میں قابل احترام، پیشہ ور، روحانی طور پر بالغ اور اعلی اخلاق کے حاصل شخصیات کے دائرے کا انتخاب کیا جائے جن کی مدد سے اور جن کی نگرانی کے تحت ریاست کے لئے اہم ترین مسائل کو دور کرنے کے لئے موثر حکمت عملی تیار کی جا سکے۔ فوری اقدامات سے بھری اس قسم کی منصوبہ بندی کو ریاستی اقتدار کے ذمہ دار افراد کے حوالہ کیا جانا چاہئے تاکہ سارے قوم کے مفاد میں اس منصوبہ بندی پر منظم و مرکوز طریقے سے باقاعدہ عمل کیا جائے۔
مجرمانہ طور پر بھی غیر اخلاقی پالیسی جاری رکھنا نامناسب ہے جس کے نتیجے میں انسانی اقدار کے انحطاط اور ان کی تباہی ہو جائیں گے۔ علاوہ ازیں بے حسی میں پڑنا، نسانی فطرت کا انکار کرنا اور خود احساس کی تلاش میں یا مایوسی محسوس کرتے ہوئے انتہا پسندی یا مطلق العنانیت کی طمع کا شکار ہونا بھی نامناسب ہے، اس کے برعکس قومی شعور کو بڑھاتے ہوئے اور کلیکٹیو انٹیلی جنس کو تیزتر بناتے ہوئے موثر فیصلے مستقل طور پر تلاش کرنا ہے۔ آخرکار یہ بھی سمجھنا ہے کہ دوسروں سے کچھ طلب کرنے سے پہلے اپنے ہی گھر میں ترتیب کرنا ہے اور اپنے اقدار، حوصلہ افزائی اور اخلاق کو درست کرنا ہے۔ اور اس صورت حال میں سماجی شناخت کا پاسپورٹ (یعنی پی سی ائی) موثر ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے (مزید معلومات کے لئے دیکھیں نامردی سنڈروم پر قابو پانےاور  جذباتی خطابت اور عوام کی مملکت کے اصولوں کی مخالفت کرنے کے طریقے نامی مضمون، جس کے لئے لنک ہے http://ceihners.blogspot.com/ خاص غرض سے اپنی ترقی کرتے ہوئے اور اپنی شخصیت میں بہتری لاتے ہوئے ہم اپنے سماج، اپنے عوام اور اپنی دنیا، جس میں ہم سب رہتے ہیں کو بہتر بنائیں گے۔
شخصیت کی مکمل ترقی کے لئے نامناسب حالات میں انسان کی طویل اور مسلسل زندگی اس نتیجے پر پہنچی کہ جدید سماج میں لوگوں کا چھوٹا ہی حصہ ترقی پسند نظریات پر کاربند ہے، مستقبل کی پیشن گوئی کرنے کا قابل ہے، اصلاحات کو منظر کرکے ان کے موثر عمل کو یقینی بنا سکتا ہے۔ سماجی شناخت کا پاسپورٹ ہی ایسا ذریعہ بن سکتا ہے جس کی مدد سے اس قسم کے لوگوں کو ڈھونڈا جا سکے۔ یوں پورے معاشرے کے مفاد میں اور ہمارے خوش مستقبل کی خاطر ایسے لوگوں کو ان کی صلاحیت کا مثبت استعمال کرنے کے لئے مواقع مہیا کئے جائیں گے۔
تب کروڑ پتویں اور سرکاری عہدیداروں کی طرف سے طاقت کے ناجائز استعمال، کاروباری ماحول کی خرابی اور روزمرہ مشکلات کے خلاف سرگرم لیکن بہت اکثر غیر موثر لڑائی پر اپنی قوت کو ضائع کرنا نہ پڑے گا۔ تب زیر اقتدار اشتعال انگیز اداروں اور حاشیائی مظاہروں (جو عام لوگوں میں حمایت نہ پاکر حکومت کی طرف سے سخت جبر و تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں) پر اپنے دل و دماغ اور اپنی ساری زندگی کی قربانی کرنا نہ پڑے گا۔ تب ہی ہم سمجھ پائیں گے کہ ریاستی نظر کی طرف سے ہمیشہ کی جانے والی غلطیوں اور سماجی عدم توازن کے خلاف بیکار مظاہروں اور غیر موثر جدوجہد کی بجائے کہیں بہتر ہے کہ ہم اپنی دانشورانہ صلاحیتوں اور اپنی قوتوں کا استعمال کریں تاکہ مکروہ، غیر پیشہ ور رفیق اور اچانک لوگ سرکاری نظار میں شامل نہ ہوں۔
درحقیقت اس کے نتیجے میں جمہوریت کو بحال کرنے اور اسے مضبوط بنانے سے وابستہ مسائل حل کئے جا سکیں گے جو آج کے لئے بے حد اہم ہیں، اس کے علاوہ اس سے اصلی جمہوریت وجود میں آنے کے لئے درکار ماحول پیدا ہوگا جب قوم خود پبلک اتھارٹی کے اداروں کو قائم کرتا ہے اور ان میں شامل ہوجاتا ہے۔ مزید برآں اس کی بدولت سرگرمیوں کے نتائج کا معروضی اندازہ لگایا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر درکار اصلاحات کئے جائیں گے۔
اپنی ناکامیوں اور تکلیفوں کا جواز پیش کرنے کی خاطر دشمنوں کا نام استعمال کرنے کا غیر گریز رجحان ایک خراب روایت بن چکا ہے جب لوگ سچ اور جھوت میں کوئی فرق نہ دیکھتے ہیں یا دیکھنا نہ چاہتے ہیں، جب وہ اپنے اندر اور اپنے آس پاس کے لوگوں کے اندر بھی نظر ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہیں، ایسے لوگ اپنے رویوں اور نظریاتوں، اپنی کارروائیوں اور ان کے نتائج کا جائزہ لینے کے ناقابل ہیں۔ یہ سب کچھ نہ کرتے ہوئے ہم تاریخ بھولنے کی بیماری کا شکار رہتے ہیں، انسانی حقوق کی غلط فہمی پر کاربند رہتے ہیں، اخلاقی زوال میں اپنی زندگی گزارتے رہتے ہیں، یوں ہم زندگی کی بند گلی میں اپنے آپ کو پاتے ہیں اور نئے سماجی آفات پھر سے آنے کے خطرات پیدا کرتے جاتے ہیں۔
عام لوگوں کی طرف سے غلط خود ذلت کرتے ہوئے اپنے آپ کو کمزور چھوٹا آدمی سمجھنے اور اپنی کمزوری کو تسلیم کرنے (جیسے جتنے کم جانتے ہو اتنی پرسکون زندگی گزاروگے) اور اقتدام پر اثر ڈالنے کے امکان کی کمی کے نتیجے میں ایسے نقلی منظم انتخابات کرانے کی تباہ کن عادت پیدا ہوتی ہے جن میں بےایمان کیرئیر دیوانے، جماعتوں کے لالچی عہدیدار اور سرمایہ کاروں کی طرف سے حمایت حاصل کرنے والے افراد قوم کے نمائندے بن جاتے ہیں۔ یوں ایک بار پھر ہم سادگی سے بھروسہ کرتے ہیں کہ اس طریقے سے منتخب افراد (جن کو تو عام ووٹر کے مقابلہ میں زیادہ دانشمند، ایماندار اور سمجھہ دار ہونا چاہئے) اقوام کے اعتماد کے تحت کام کریں گے، اہم ترین مسائل کو حل کریں گے اور پورے قوم کے مفاد میں فیصلہ کر پائیں گے۔
اپنی زندگیوں کو ایسے اقتدار کے حوالہ کرتے ہوئے جس کے لئے اپنے ہی مفاد میں تیار کردہ انتخابات کے دوران ہی یہ بھروسہ چاہئے، ہمیں آگے چل کر ہمارے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات کو قبول کرنا پڑے گا جبکہ دراصل اقتدار کے نمائندوں سے ہمارا رابطہ رفتہ رفتہ غائب ہوتا جائے گا اور ہم ان کی کارروائیوں کی نگرانی کرنے اور ان پر اثر ڈالنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
پروپیگنڈے کی بدولت پھیلنے والے آدھے سچ پر یقین رکھتے ہوئے اور جذباتی خطابت اور  عوام کی مملکت کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے، بیانوں کے تحت کارروائیاں کرنے یا نہ کرنے کا جائزہ نہ کرتے ہوئے، غیر حقیقی بہانوں اور جھوٹے دلائل کو صحی سمجھتے ہوئے ہم اپنی تنگ نظری میں کمزور اور حکام کے ماتحت لوگ بن جاتے ہيں جن پر آسانی سے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے اور جن کی ووٹروں کی جمہوری صلاحیت کھو جاتی ہے۔ اسی لئے ہم اسی جگہ پر ہیں! اس سے پہلے دی گئی پیشکشوں کی پس منظر میں یہ سب کچھ ثابت کرتا ہے کہ سرکاری نظام میں فوری طور پر تبدیلی لائے جانی کی اشد ضرورت ہے۔
اس مضمون میں دی گئی پیشکشیں تعمیری ہونے کے باوجود بہت زیادہ افراد کو اس معاملے سے متعلق سخت، عدم روادار اور لعنتی بیاناب ناپسند ہو سکتے ہیں۔ لیکن لوگوں کی آنکھیں کھولتے ہی اور ہر کسی چیز کو اپنے اپنے نام سے پکارتے ہیں، صورت حال کا حقیقی تجزیہ کرتے ہوئے ہی موجودہ سماجی و معاشی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے اور ہم انسانی آفت سے بچ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہاں پیش کیا گیا جمہوریت کی بحالی کا راستہ ارتقائی ہی ہے، یہ کوئی تباہ کن انقلابی تجربہ نہیں ہے جس کے نتیبجے میں بڑے پیمانے میں لوگوں کے شکار ہیں اور نئے انسانی آفات آتے ہیں۔
ہمیں پورا یقین ہے کہ قریب مستقبل میں اگلی نسلیں اب تک کے زمانہ کو تاریک دور اور تشدد و غلامی کی صدیوں کا نام دیں گی۔
فی الحال تو پڑھنے والے سے صرف دلچسپی بھرا توجہ اور اس سے پیدا ہونے والے تفہیم چاہئیں تاکہ سماجی شناخت کے پاسپورٹ کی پیشکش کو ایک ایسا ذریعہ سمجھے جس کی مدد سے جمہوریت کے موجودہ اداروں کی ترقی کرنے اور ان میں بہتری لانے کے امکانات پیدا ہوں گے اور جمہوریت کے اصولوں کے تحت سماجی ماحول پیدا ہوگا۔ ایسی دلچسپی سے تبدیلیوں کے لئے بے تاب رہنے والے اور سماجی طور پر فعال افراد کو سرگرمی سے مصنف کی حمایت کرنے میں مدد ملے گی جو اس قسم کے سماجی شناخت کے پاسپورٹ کے ڈیمو ورژن (پہلے پہل صرف اپنے لئے ہی) بنانے کی غیرلالچی کوشش کر رہے ہیں۔ پی سی ائی کی پیشکش کے بانی اس پاسپورٹ کی تیاری کے لئے اتنی بڑی فنڈنگ کرنے پر آمادہ ہیں جتنی وہ کر سکتے ہیں۔ کیا ایسی پہل پر تجرباتی عمل کرنے کے لئے کوئی رکاوٹ ہے؟ یہ سمجھنا چاہئے کہ صرف قدامت پرستی، ظاہر خود کفالت، بے حسی اور غیر سمجھ ایسی رکاوٹیں بن سکتے ہیں۔

ارون تسیئخنر، اکنامک سائنسز کے ڈاکٹرErvins Ceihners, Dr.oec                 
                      

                         

                      07.03.2017

1 komentārs:

  1. It’s remarkable to visit this web site and reading the views of all mates concerning this paragraph i much like this
    Yeh Mohabbat

    AtbildētDzēst